DhuaaN… By Gulzar

burning-home

دھواں

گلزار
ہندی سے اردو ترجمہ: شیراز حسن

بات سلگی تو بہت آہستہ سے تھی، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے پورے قصبے میں ‘دھواں’ بھر گیا۔ چودھری کی موت صبح چار بجے ہوئی تھی۔ سات بجے تک چودھرائن نے رو دھو کر ہوش سنبھالے اور سب سے پہلے ملا خیرالدین کو بلایا اور نوکر کو سخت تاکید کی کہ کوئی ذکر نہ کرے۔ نوکر جب ملّا کو آنگن میں چھوڑ کر چلا گیا تو چودھرائن ملّا کو اوپر خواب گاہ میں لے گئی، جہاں چودھری کی لاش بستر سے اتار کر زمین پر بچھا دی گئی تھی۔ دو سفید چادروں کے درمیان لیٹا ایک زردی مائل سفید چہرہ، سفید بھونویں، داڑھی اور لمبے لمبے سفید بال۔ چودھری کا چہرہ بڑا نورانی لگ رہا تھا۔

ملاّ نے دیکھتے ہی ‘اِنا لِلہِ وِنا ِلیہِ راجِعون’ پڑھا، کچھ رسمی سے جملے کہے۔ ابھی ٹھیک سے بیٹھا بھی نہ تھا کہ چودھرائن الماری سے ثبوت نکال لائی، ملاّ کو دکھایا اور پڑھایا بھی۔ چودھری کی آخری خواہش تھی کہ انہیں دفن کے بجائے چتا پر رکھ کے جلایا جائے اور ان کی راکھ کو گائوں کی ندی میں بہا دیا جائے، جو ان کی زمین سینچتی ہے۔

ملاّ پڑھ کے خاموش رہا۔ چودھری نے دین مذہب کے لئے بڑے کام کئے تھے گائوں میں۔ ہندو، مسلمان کو ایک سا عطیہ دیتے تھے۔ گائوں میں کچی مسجد پکی کرا دی تھی۔ اور تو اور ہندوں کے شمشان کی عمارت بھی پکی کروائی تھی۔ اب کئی سالوں سے بیمار پڑے تھے، لیکن اس بیماری کے دوران بھی ہر رمضان میں غریب غرباء کی افگری (افطاری) کا انتظام مسجد میں انہی کی طرف سے ہوا کرتا تھا۔ علاقے کے مسلمان بڑے مداح تھے ان کے، بڑا عقیدہ تھا ان پر اور اب وصیت پڑھ کے بڑی حیرت ہوئی ملّا کو کہیں جھمیلا نہ کھڑا ہوجائے۔ آج کل ویسے ہی ملک کی فضا خراب ہو رہی تھی، ہندو کچھ زیادہ ہی ہندو ہو گئے تھے، مسلمان  کچھ زیادہ مسلمان۔

چودھرائن نے کہا، ‘میں کوئی پاٹھ پوجا نہیں کرنا چاہتی۔ بس اتنا چاہتی ہوں کہ شمشان میں انہیں جلانے کا انتظام کر دیجئے۔ میں رام چندر پنڈت کو بھی بتا سکتی تھی، لیکن اس لئے نہیں بلایا کہ بات کہیں بگڑ نہ جائے۔ ‘

بات بتانے ہی سے بگڑ گئی جب ملّا خیرالدین نے مصلحتاً پنڈت رام چندر کو بلا کر سمجھایا کہ
‘تم چودھری کو اپنے شمشان میں جلانے کی اجازت نہ دینا ورنہ ہو سکتا ہے، علاقے کے مسلمان واویلا کھڑا کر دیں۔آخر چودھری عام آدمی تو تھا نہیں، بہت سے لوگ بہت طرح سے ان سے جڑے ہوئے ہیں۔’
پنڈت رام چندر نے بھی یقین دلایا کہ وہ کسی طرح کی شر انگیزی اپنے علاقے میں نہیں چاہتے۔ اس سے پہلے بات پھیلے، وہ بھی اپنی طرف کے مخصوص لوگوں کو سمجھا دیں گے۔

بات جو سلگ گئی تھی دھیرے دھیرے آگ پکڑنے لگی۔ سوال چودھری اور چودھرائن کا نہیں ہے، سوال عقیدوں کا ہے۔ ساری قوم ہے، ساری کمیونٹی اور مذہب کا ہے۔ چودھرائن کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ اپنے شوہر کو دفن کرنے کی بجائے جلانے پر تیار ہو گئی۔ وہ کیا اسلام کے آئین نہیں جانتی؟ ‘

کچھ لوگوں نے چودھرائن سے ملنے کی بھی ضد کی۔ چودھراین نے بڑے تحمل سے کہا،
‘بھائیوں! ایسی ان کی آخری خواہش تھی۔ مٹی ہی تو ہے، اب جلا دو یا دفن کر دو، جلانے سے ان کی روح کو تسین ملے تو آپ کو اعتراض ہو سکتا ہے؟ ‘
ایک صاحب کچھ زیادہ طیش میں آ گئے۔
بولے، ‘انہیں جلا کر کیا آپ کو تسکین ہوگی؟’
‘جی ہاں۔’ چودھرائن کا جواب بہت مختصر تھا۔
‘ان کی آخری خواہش پوری کرنے سے ہی مجھے تسکین ہوگی۔’

دن چڑھتے چڑھتے چودھرائن کی بے چینی بڑھنے لگی۔ جس بات کو وہ صلح صفائی سے نمٹنا چاہتی تھی وہ طول پکڑنے لگی۔ چودھری صاحب کی اس خواہش کے پیچھے کوئی پیچیدہ پلاٹ، کہانی یا راز کی بات نہیں تھی۔ نہ ہی کوئی ایسا فلسفہ تھا جو کسی دین مذہب یا عقیدے سے جڑتا ہو۔ ایک سیدھی سادھی انسانی خواہش تھی کہ مرنے کے بعد میرا کوئی نام و نشان نہ رہے۔
‘جب ہوں تو ہوں، جب نہیں ہوں تو کہیں نہیں ہوں۔’

برسوں پہلے یہ بات بیوی سے ہوئی تھی، پر جیتے جی کہاں کوئی ایسی تفصیل میں جھانک کر دیکھتا ہے۔ اور یہ بات اس خواہش کو پورا کرنا چودھرائن کی محبت اور اعتماد کا ثبوت تھا۔ یہ کیا کہ آدمی آنکھ سے اوجھل ہوا اور آپ تمام عہد و پیمان بھول گئے۔

چودھرائن نے ایک بار بیرو کو بھیج کر رام چندر پنڈت کو بلانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن پنڈت ملا ہی نہیں۔ اس کے چوکیدار نے کہا –
‘دیکھو بھئی، ہم جلانے سے پہلے منتر پڑھے چودھری کو تلک ضرور لگائیں گے۔’
“ارے بھئی جو مر چکا اس کا مذہب اب کیسے بدلے گا؟ ‘
‘تم زیادہ بحث تو کرو نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ گیتا کے شلوک پڑھے بغیر ہم کسی کو آگ کا منہ دکھا دیں۔ ایسا نہ کریں تو روح ہم سب کو ستائے گی، تمہیں بھی، ہمیں بھی۔ چودھری صاحب کے ہم پر بہت احسان ہیں۔ ہم ان کی روح کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔’
بیرو واپس گیا۔
بیرو جب پنڈت کے گھر سے نکل رہا تھا تو پنّا نے دیکھ لیا۔ پنّا نے جا کر مسجد میں خبر کر دی۔

آگ جو گُھٹ گُھٹ کر ٹھنڈی ہونے لگی تھی، پھر سے بھڑک اٹھی۔ چار پانچ معتبر مسلمانوں نے تو اپنا قطعی فیصلہ بھی سنا دیا۔ ان پر چودھری کے بہت احسان تھے وہ ان کی روح کو بھٹکنے نہیں دیں گے۔ مسجد کے پچھواڑے والے قبرستان میں، قبر کھودنے کا حکم بھی دے دیا۔

شام ہوتے ہوتے کچھ لوگ پھر حویلی پر آ دھمکے۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ چودھرائن کو ڈرا دھمکا کر، چودھری کا ثبوت اس سے حاصل کر لیا جائے اور جلا دیا جائے پھر عہد نامہ ہی نہیں رہے گا تو بڑھیا کیا کر لے گی۔

چودھران نے شاید یہ بات سونگھ لی تھی۔ عہد نامہ تو اس نے کہیں چھپا دیا تھا اور جب لوگوں نے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی تو اس نے کہہ دیا،
‘ملا خیرالدین سے پوچھ لو، اس نے وصیت دیکھی ہے اور پوری پڑھی ہے۔’
‘اور اگر وہ انکار کر دے تو؟’
‘قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کے انکار کر دے تو دکھا دیں گے، ورنہ۔۔ ‘
‘ورنہ کیا؟’
‘ورنہ کچہری میں دیکھنا’

بات کچہری تک جا سکتی ہے، یہ بھی واضح ہو گیا۔ ہو سکتا ہے چودھرائن شہر سے اپنے وکیل کو اور پولیس کو بلا لے۔ پولیس کو بلا کر ان کی حاضری میں اپنے ارادے پر عمل کر لے۔ اور کیا پتہ وہ اب تک انہیں بلا بھی چکیں ہوں۔ ورنہ شوہر کی لاش برف کی سلوں پر رکھ کر کوئی کیسے اتنی خود اعتمادی سے بات کر سکتا ہے۔

رات کے وقت خبریں افواہوں کی رفتار سے اڑتی ہیں۔ گلزار
کسی نے کہا، ‘ایک گھوڑا سوار ابھی ابھی شہر کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ گھڑسوار نے سر اور منہ صافے سے ڈھانپ رکھا تھا، اور وہ چودھری کی حویلی سے ہی آ رہا تھا۔ ‘
ایک نے تو اسے چودھری کے اصطبل سے نکلتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔
خادو کا کہنا تھا کہ اس نے حویلی کے پچھلے احاطے میں صرف لکڑیاں کاٹنے کی آواز ہی نہیں سنی، بلکہ درخت گرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
چودھرائن یقیناً پچھلے احاطے میں، چتا لگوانے کا انتظام کر رہی ہیں۔کلّو کا خون کھول اٹھا۔
‘بزدلو، آج رات ایک مسلمان کو چتا پر جلایا جائے گا اور تم سب یہاں بیٹھے آگ کی لپٹیں دیکھو گے۔’
کلّو اپنے اڈے سے باہر نکلا۔ خون خرابہ اس کا پیشہ ہے تو کیا ہوا؟ ایمان بھی تو کوئی چیز ہے۔
‘ایمان سے عزیز تو ماں بھی نہیں ہوتی یارو۔’

چار پانچ ساتھیوں کو لے کر کلّو پچھلی دیوار سے حویلی پر چڑھ گیا۔ بڑھیا اکیلی بیٹھی تھی، لاش کے پاس۔ چونکنے سے پہلے ہی کلّو کی کلہاڑی سر سے گزر گئی۔
چودھری کی لاش کو اٹھوایا اور مسجد کے پچھواڑے لے گئے، جہاں اس کی قبر تیار تھی۔ جاتے جاتے رمجے نے پوچھا،
‘صبح چودھرائن کی لاش ملے گی تو کیا ہوگا؟’
‘بڑھیا مر گئی کیا؟’
‘سر تو پھٹ گیا تھا، صبح تک کیا بچے گی؟’
کلّو رکا اور دیکھا چودھرائن کی خوابگاہ کی طرف۔ پنّا کلّو کے ‘جگرے’ کی بات سمجھ گیا۔
“تو چل استاد، تیرا جگرا کیا سوچ رہا ہے میں جانتا ہوں. سب انتظام ہو جائے گا۔’

کلّو نکل گیا، قبرستان کی طرف۔
رات جب چودھری کی خواب گاہ سے آسمان چھوتی لپٹیں نکل رہی تھی تو سارا شہر دھوئیں سے بھرا ہوا تھا۔
زندہ جلا دیے گئے تھے،
اور مردے دفن ہو چکے تھے۔

***

धुआँ 

गुलजार

बात सुलगी तो बहुत धीरे से थी, लेकिन देखते ही देखते पूरे कस्बे में ‘धुआँ’ भर गया। चौधरी की मौत सुबह चार बजे हुई थी। सात बजे तक चौधराइन ने रो-धो कर होश सम्भाले और सबसे पहले मुल्ला खैरूद्दीन को बुलाया और नौकर को सख़्त ताकीद की कि कोई ज़िक्र न करे। नौकर जब मुल्ला को आँगन में छोड़ कर चला गया तो चौधराइन मुल्ला को ऊपर ख़्वाबगाह में ले गई, जहाँ चौधरी की लाश बिस्तर से उतार कर ज़मीन पर बिछा दी गई थी। दो सफेद चादरों के बीच लेटा एक ज़रदी माइल सफ़ेद चेहरा, सफेद भौंवें, दाढ़ी और लम्बे सफेद बाल। चौधरी का चेहरा बड़ा नूरानी लग रहा था।

मुल्ला ने देखते ही ‘एन्नल्लाहे व इना अलेहे राजेउन’ पढ़ा, कुछ रसमी से जुमले कहे। अभी ठीक से बैठा भी ना था कि चौधराइन अलमारी से वसीयतनामा निकाल लाई, मुल्ला को दिखाया और पढ़ाया भी। चौधरी की आख़िरी खुवाहिश थी कि उन्हें दफ़न के बजाय चिता पर रख के जलाया जाए और उनकी राख को गाँव की नदी में बहा दिया जाए, जो उनकी ज़मीन सींचती है।

मुल्ला पढ़ के चुप रहा। चौधरी ने दीन मज़हब के लिए बड़े काम किए थे गाँव में। हिन्दु-मुसलमान को एकसा दान देते थे। गाँव में कच्ची मस्जिद पक्की करवा दी थी। और तो और हिन्दुओं के शमशान की इमारत भी पक्की करवाई थी। अब कई वर्षों से बीमार पड़े थे, लेकिन इस बीमारी के दौरान भी हर रमज़ान में गरीब गुरबा की अफ़गरी (अफ़तारी) का इन्तज़ाम मस्जिद में उन्हीं की तरफ़ से हुआ करता था। इलाके के मुसलमान बड़े भक्त थे उनके, बड़ा अकीदा था उन पर और अब वसीयत पढ़ के बड़ी हैरत हुई मुल्ला को कहीं झमेला ना खड़ा हो जाए। आज कल वैसे ही मुल्क की फिज़ा खराब हो रही थी, हिन्दू कुछ ज़्यादा ही हिन्दू हो गए थे, मुसलमान कुछ ज़्यादा मुसलमान!!

चौधराइन ने कहा, ‘मैं कोई पाठ पूजा नहीं करवाना चाहती। बस इतना चाहती हूँ कि शमशान में उन्हें जलाने का इन्तज़ाम कर दीजिए। मैं रामचन्द्र पंडित को भी बता सकती थी,लेकिन इस लिए नहीं बुलाया कि बात कहीं बिगड़ न जाए।’

बात बताने ही से बिगड़ गई जब मुल्ला खैरूद्दीन ने मसलेहतन पंडित रामचंन्द्र को बुला कर समझाया कि —
‘तुम चौधरी को अपने शमशान में जलाने की इज़ाज़त ना देना वरना हो सकता है, इलाके के मुसलमान बावेला खड़ा कर दें। आखिर चौधरी आम आदमी तो था नहीं, बहुत से लोग बहुत तरह से उन से जुड़े हुए हैं।’
पंडित रामचंद्र ने भी यकीन दिलाया कि वह किसी तरह की शर अंगेज़ी अपने इलाके में नहीं चाहते। इस से पहले बात फैले, वह भी अपनी तरफ़ के मखसूस लोगों को समझा देंगे।

बात जो सुलग गई थी धीरे-धीरे आग पकड़ने लगी। सवाल चौधरी और चौधराइन का नहीं हैं, सवाल अकीदों का है। सारी कौम, सारी कम्युनिटि और मज़हब का है। चौधराइन की हिम्मत कैसे हुई कि वह अपने शौहर को दफ़न करने की बजाय जलाने पर तैयार हो गई। वह क्या इसलाम के आईन नहीं जानती?’

कुछ लोगों ने चौधराइन से मिलने की भी ज़िद की। चौधराइन ने बड़े धीरज से कहा,
‘भाइयों! ऐसी उनकी आख़री ख्व़ाहिश थी। मिट्टी ही तो है, अब जला दो या दफन कर दो, जलाने से उनकी रूह को तसकीन मिले तो आपको एतराज़ हो सकता है?’
एक साहब कुछ ज़्यादा तैश में आ गए।
बोले, ‘उन्हें जलाकर क्या आप को तसकीन होगी?’
‘जी हाँ।’ चौधराइन का जवाब बहुत मुख्तसर था।
‘उनकी आख़री ख़्वाहिश पूरी करने से ही मुझे तसकीन होगी।’

दिन चढ़ते-चढ़ते चौधराइन की बेचैनी बढ़ने लगी। जिस बात को वह सुलह सफाई से निपटना चाहती थी वह तूल पकड़ने लगी। चौधरी साहब की इस ख़्वाहिश के पीछे कोई पेचीदा प्लाट, कहानी या राज़ की बात नहीं थी। ना ही कोई ऐसा फलसफ़ा था जो किसी दीन मज़हब या अकीदे से ज़ुड़ता हो। एक सीधी-सादी इन्सानी ख्व़ाहिश थी कि मरने के बाद मेरा कोई नाम व निशान ना रहे।
‘जब हूँ तो हूँ, जब नहीं हूँ तो कहीं नहीं हूँ।’

बरसों पहले यह बात बीवी से हुई थी, पर जीते जी कहाँ कोई ऐसी तफ़सील में झाँक कर देखता है। और यह बात उस ख़्वाहिश को पूरा करना चौधराइन की मुहब्बत और भरोसे का सुबूत था। यह क्या कि आदमी आँख से ओझल हुआ और आप तमाम ओहदो पैमान भूल गए।

चौधराइन ने एक बार बीरू को भेजकर रामचंद्र पंडित को बुलाने की कोशिश भी की थी लेकिन पंडित मिला ही नहीं। उसके चौकीदार ने कहा —
‘देखो भई, हम जलाने से पहले मंत्र पढ़के चौधरी को तिलक जरूर लगाएँगे।’
‘अरे भई जो मर चुका उसका धर्म अब कैसे बदलेगा?’
‘तुम ज़्यादा बहस तो करो नहीं। यह हो नहीं सकता कि गीता के श्लोक पढ़े बगैर हम किसी को मुख अग्नि दें। ऐसा ना करें तो आत्मा हम सब को सताएगी, तुम्हें भी, हमें भी। चौधरी साहब के हम पर बहुत एहसान हैं। हम उनकी आत्मा के साथ ऐसा नहीं कर सकते।’
बीरू लौट गया।
बीरू जब पंडित के घर से निकल रहा था तो पन्ना ने देख लिया। पन्ना ने जाकर मस्जिद में ख़बर कर दी।

आग जो घुट-घुट कर ठंडी होने लगी थी, फिर से भड़क उठी। चार-पाँच मुअतबिर मुसलमानों ने तो अपना कतई फैसला भी सुना दिया। उन पर चौधरी के बहुत एहसान थे वह उनकी रूह को भटकने नहीं देंगे। मस्जिद के पिछवाड़े वाले कब्रिस्तान में, कब्र खोदने का हुक्म भी दे दिया।

शाम होते-होते कुछ लोग फिर हवेली पर आ धमके। उन्होंने फ़ैसला कर लिया था कि चौधराइन को डरा धमका कर, चौधरी का वसीयतनामा उससे हासिल कर लिया जाए और जला दिया जाए फिर वसीयतनामा ही नहीं रहेगा तो बुढ़िया क्या कर लेगी।

चौधराइन ने शायद यह बात सूंघ ली थी। वसीयतनामा तो उसने कहीं छुपा दिया था और जब लोगों ने डराने धमकाने की कोशिश की तो उसने कह दिया,
‘मुल्ला खैरूद्दीन से पूछ लो, उसने वसीयत देखी है और पूरी पढ़ी है।’
‘और अगर वह इन्कार कर दे तो?’
‘कुरआन शरीफ़ पर हाथ रख के इन्कार कर दे तो दिखा दूँगी, वरना…’
‘वरना क्या?’
‘वरना कचहरी में देखना।’

बात कचहरी तक जा सकती है, यह भी वाज़े हो गया। हो सकता है चौधराइन शहर से अपने वकील को और पुलिस को बुला ले। पुलिस को बुला कर उनकी हाज़री में अपने इरादे पर अमल कर ले। और क्या पता वह अब तक उन्हें बुला भी चुकीं हों। वरना शौहर की लाश बर्फ़ की सिलों पर रखकर कोई कैसे इतनी खुद एतमादी से बात कर सकता है।

रात के वक्त ख़बरे अफ़वाहों की रफ्तार से उड़ती है।
किसी ने कहा, ‘एक घोडा सवार अभी-अभी शहर की तरफ़ जाते हुए देखा गया है। घुड़सवार ने सर और मुँह साफे से ढांप रखा था, और वह चौधरी की हवेली से ही आ रहा था।’
एक ने तो उसे चौधरी के अस्तबल से निकलते हुए भी देखा था।
ख़ादू का कहना था कि उसने हवेली के पिछले अहाते में सिर्फ़ लकड़ियाँ काटने की आवाज़ ही नहीं सुनी, बल्कि पेड़ गिरते हुए भी देखा है।
चौधराइन यकीनन पिछले अहाते में, चिता लगवाने का इन्तज़ाम कर रही हैं। कल्लू का खून खौल उठा।
‘बुजदिलों – आज रात एक मुसलमान को चिता पर जलाया जाएगा और तुम सब यहाँ बैठे आग की लपटें देखोगे।’
कल्लू अपने अड्डे से बाहर निकला। खून खराबा उसका पेशा है तो क्या हुआ? ईमान भी तो कोई चीज़ है।
‘ईमान से अज़ीज तो माँ भी नहीं होती यारों।’

चार पाँच साथियों को लेकर कल्लू पिछली दीवार से हवेली पर चढ़ गया। बुढ़िया अकेली बैठी थी, लाश के पास। चौंकने से पहले ही कल्लू की कुल्हाड़ी सर से गुज़र गई।
चौधरी की लाश को उठवाया और मस्जिद के पिछवाड़े ले गए, जहाँ उसकी कब्र तैयार थी। जाते-जाते रमजे ने पूछा,
‘सुबह चौधराइन की लाश मिलेगी तो क्या होगा?’
‘बुढ़िया मर गई क्या?’
‘सर तो फट गया था, सुबह तक क्या बचेगी?’
कल्लू रुका और देखा चौधराइन की ख़्वाबगाह की तरफ़। पन्ना कल्लू के ‘जिगरे’ की बात समझ गया।
‘तू चल उस्ताद, तेरा जिगरा क्या सोच रहा है मैं जानता हूँ। सब इन्तज़ाम हो जाएगा।’

कल्लू निकल गया, कब्रिस्तान की तरफ़।
रात जब चौधरी की ख्व़ाबगाह से आसमान छुती लपटें निकल रही थी तो सारा कस्बा धुएँ से भरा हुआ था।
ज़िन्दा जला दिए गए थे,
और मुर्दे दफ़न हो चुके थे।

This entry was posted in Indian Writers and tagged , , , , , , , , , , , , , , , , . Bookmark the permalink.

5 Responses to DhuaaN… By Gulzar

  1. rachna says:

    A spine-chilling, true account of the state of affairs in our society. This is the kind of story one never forgets after reading! The success and merit of this blog is not just in the fact that it shares literature across the readers of the two scripts, but also in the choice of stories. Absolutely wonderful work. Way to go!

  2. Arshia says:

    ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺗﻮ ﮨﻮﺱ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﮨﻤﯿﮟ،
    ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺎﻟﺖ۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ،

  3. Mothu says:

    When will we learn to interpret our leanings and religious teaching in a rational and time dependent manner! Wonderful story written like Manto or Dharam Vir Bharti or Krisna Sobti.

  4. Azad Qalamdaar says:

    brilliant! great blog, timely initiative, one request;

    these works are not ‘Translation(tarjumah) from Hindi to Urdu’ but Transliteration(naql-e hurfi/lafzi/sauti) from Devanagari-to-Nastaliq & vice verca..

Leave a comment